Notes![what is notes.io? What is notes.io?](/theme/images/whatisnotesio.png)
![]() ![]() Notes - notes.io |
پبلک ٹرانسپورٹ: چھوٹے چھوٹے کام!
کیا حکومت پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا فائدہ عام آدمی کو منتقل کرنے میں کامیاب ہوگی؟ ملک گیر جائزے کے اِس سوال کا جواب محض تیس فیصد افراد نے نفی میں دیا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت عوام کی توقعات پر پورا اُتر رہی ہے اور کراچی سے پشاور تک اکثریت کی رائے میں ایندھن کی قیمتیں کم ہونے سے ذرائع آمدورفت کے کرائے (آنے والے دنوں میں) حسب توقع کم ہوں گے لیکن کب؟
پبلک ٹرانسپورٹ کی اکثریت پیٹرول یا ڈیزل کی بجائے کمپریسڈ نیچرل گیس ’سی این جی‘ استعمال کرتی ہے۔ حتیٰ کہ پشاور میں ایک وقت تک آٹو رکشاؤں کی بڑی تعداد مائع گیس (لیکوئڈ نیچرل گیس ’ایل این جی‘) استعمال کر رہی تھی لیکن بعدازاں پچانوے فیصد سے زائد رکشے ’سی این جی‘ پر منتقل ہو چکے ہیں اور اگرچہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم اِس سے پبلک ٹرانسپورٹ کے جملہ ذرائع (بس‘ منی بس‘ ویگن‘ موٹرکار ٹیکسی اُور آٹو رکشہ) کے کرائے جوں کے توں ’آسمان سے باتیں‘ کر رہے ہیں اور اِس سلسلے میں جب ٹرانسپورٹروں سے بات کی گئی تو اُنہوں نے کرائے کم کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب تک ’سی این جی‘ کی قیمتیں کم نہیں کی جاتیں‘ کرائے میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ جس ایک نکتے پر ٹرانسپورٹروں نے سب سے زیادہ زور دیا وہ پیٹرولیم کی ایک دیگر قسم ہے‘ جو انجن آئل کی صورت استعمال ہوتی ہے جبکہ مکنیک سے لیکر کنڈیکٹر تک اَفرادی قوت کی گرانی کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی۔ ’’کیا حکومت نہیں جانتی کہ‘ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی یومیہ مزدوری کتنی بنتی ہے؟ گاڑی کی مرمت اور معمول کی دیکھ بھال کے اخراجات ماضی کے مقابلے کس قدر بڑھ چکے ہیں؟ ہر ایک گاڑی کو اڈے کی فیس‘ پارکنگ فیس اور گاڑی کو سڑک پر رواں دواں رکھنے کے لئے کتنے پیسے ماہانہ خرچ کرنا پڑتے ہیں؟‘‘
سب کے پاس جواز ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہاں ہر ایک کے پاس عام آدمی کو لوٹنے کے لئے جواز موجود ہیں۔ سچ تو بس یہ ہے کہ ’عام آدمی ٹرانسپورٹروں کے رحم و کرم پر ہے‘ اُور ارباب اختیار (صوبائی حکومت‘ ٹرانسپورٹ کا محکمہ‘ ٹریفکل پولیس حکام) سب کچھ جانتے ہوئے بھی خود کو انجان بنائے ہوئے ہیں‘ اُنہیں اِس بات کا بخوبی علم ہے ٹرانسپورٹرز کرائے کسی صورت کم نہیں کریں گے‘ البتہ اُنہوں نے عام آدمی کو ایک ’سبز باغ‘ ضرور دکھا رکھا ہے کہ ’اُمید پر دنیا قائم ہے۔‘ اگر ہم ضلع پشاور ہی کی بات کریں تو جنرل بس اسٹینڈ سے صدر تک ایک سٹاپ کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے یعنی شہر سے صدر تک اگر آپ کسی بھی مقام سے سوار ہوتے یا اُترتے تھے تو ایک سٹاپ کا مقررہ کرایہ لیا جاتا تھا۔ اب جنرل بس اسٹینڈ سے صدر تک دو سے تین سٹاپس (stops) کے مساوی کرایہ (fare) لیا جاتا ہے۔ زائد کرایہ وصول کرنے کا طریقہ واردات ٹرانسپورٹروں کی اَزخود اِیجاد نہیں بلکہ اِس میں فیصلہ سازوں کی مشاورت اور تائید بھی یقیناً’شامل حال‘ رہی ہو گی۔ اگر صوبائی حکومت اِس بے قاعدگی کا نوٹس لے تو آج بھی شہر سے صدر تک ایک سٹاپ مقرر کیا جاسکتا ہے جس سے ملازمت پیشہ اور بالخصوص طلباء و طالبات طبقات کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا یعنی اگر ٹرانسپورٹرز کرایہ کم کرنے پر (کسی وجہ سے) آمادہ نہیں تو مختصر فاصلے پر مقرر کردہ سٹاپ ختم کئے جا سکتے ہیں۔ شہر سے صدر اور صدر سے حیات آباد یا کارخانو سٹاپ مقرر کر کے ٹرانسپورٹروں کو سبق تو سکھایا جاسکتا ہے جو عام آدمی کی مجبوری سے کھل کر فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ شعبہ مکمل طور پر نجی ملکیت میں دے دیا گیا ہے اور چونکہ اُن سبھی سیاسی کرداروں کی اکثریت جو کہ قانون ساز ایوانوں کا رکن منتخب ہوتی ہے خود اِس پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کرتی‘ اِس لئے اُسے عام آدمی کے ’سفر (suffer)‘ ہونے کا دل سے اِحساس بھی نہیں۔
آخر کیا امر مانع ہے کہ آج تک پشاور شہر کی حدود میں چلنے والے آٹو رکشاؤں کے کرائے مقرر نہیں ہوسکے؟ ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر آٹو رکشے کا استعمال کرنے والوں سے ساٹھ روپے کا تقاضا کرنے والوں سے زیادہ اُن فیصلہ سازوں کو شرم آنی چاہئے جنہوں نے آنکھیں موندھ رکھی ہیں۔ ٹیکسی گاڑیوں کے کرائے ایک الگ موضوع ہے جو سی این جی ایندھن استعمال کرنے کے باوجود کرائے ’سپر پیٹرول‘ کے تناسب سے وصول کر رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں عوام کے منتخب نمائندوں کو اپنی توجہات بڑے ترقیاتی منصوبوں (میگا ڈویلپمنٹ پراجیکٹس) سے اِن چھوٹی چھوٹی ’وارداتوں‘ کی طرف مبذول کرنا ہوگی‘ جن کا شکار ہونے والے ہر روز بلکہ دن میں کئی کئی مرتبہ ’لٹ‘ رہے ہیں۔ صاحبان کی نازک طبیعت پر گراں نہ گزرے اور اُن کا کانچ سے بھی نازک اِستحقاق اگر مجروح نہ ہو‘ تو جان لیں کہ دردمندی سے اُس عام آدمی کی تکلیف کا اِحساس کرنے کا یہ ’حساس گھڑی‘ ہے‘ جس کا پبلک ٹرانسپورٹ کے ہاتھوں ’ناک میں دم‘ آ چکا ہے۔ بین الاضلاع پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ گاڑیوں میں مقررہ تعداد (seat-to-seat) مسافروں کو سوار کرنے کی بجائے فی گاڑی گنجائش سے کم از کم 2 اور زیادہ سے زیادہ 3 مسافر اضافی سوار کر لیتے ہیں‘ یوں اگر کسی مقام کا کرایہ فی مسافر تین سو روپے ہے تو اُنہیں باآسانی چھ سے نو سو روپے مل جاتے ہیں‘ جس سے (بقول ایک ٹرانسپورٹر) اَڈہ فیس‘ ٹول ٹیکس اور ٹریفک پولیس کا ماہانہ بھتے کی اقساط باقاعدگی سے اَدا کی جاتی ہیں۔ زائد مسافروں کوسوار کرنے والی گاڑیاں موٹروے (motorway) روٹ کا استعمال بھی نہیں کرتیں کیونکہ موٹروے پولیس کسی سے رعائت نہیں کرتی لیکن مسئلہ چیکنگ کے نہ ہونے کا ہے۔ جب کسی مسافر گاڑی کی موٹروے کے ایک ٹول پلازے سے دوسرے ٹول پلازے تک جانچ (چیکنگ) ہی نہیں ہوگی‘ تو بھلا اُس گاڑی کے اندر ٹھونسے ہوئے لوگوں اور قواعد شکنی کرنے والوں پر گرفت کیسے ممکن ہو پائے گی؟
پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کپڑے‘ الیکٹرانک مصنوعات اور برتنوں کی غیرقانونی اسمگلنگ‘ مسافروں کو مقررہ گنجائش سے زیادہ سوار کرنا اور حکومت کے مقرر کردہ کرایوں سے زائد وصول کرنے کی روش ماضی کی طرح موجودہ حکومت میں بھی جوں کی توں جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب خیبرپختونخوا میں ’تبدیلی‘ آنے کی بات کی جاتی ہے اور نظر ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ پر پڑتی ہے تو بے اختیار منہ سے ’آہ‘ نکل جاتی ہے کیونکہ ہم ’خود فریبی‘ اور ’خودپسندی‘ کی اُس بلندی کو چھو رہے ہیں جہاں ہمیں برسرزمین حقائق دکھائی نہیں دے رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عام آدمی کے حال پر رحم اور ہمارے حکمرانوں‘ فیصلہ سازوں کی توفیقات میں اضافہ فرمائے‘ جن کی ترجیحات ’بڑے بڑے کام‘ کرنے کی ہے‘ تو آخر یہ ’چھوٹے چھوٹے کام‘ کون کرے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
07 November, 2014 / 13 Muharram, 1436
![]() |
Notes is a web-based application for online taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000+ notes created and continuing...
With notes.io;
- * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
- * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
- * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
- * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
- * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.
Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.
Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!
Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )
Free: Notes.io works for 14 years and has been free since the day it was started.
You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;
Email: [email protected]
Twitter: http://twitter.com/notesio
Instagram: http://instagram.com/notes.io
Facebook: http://facebook.com/notesio
Regards;
Notes.io Team