NotesWhat is notes.io?

Notes brand slogan

Notes - notes.io

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حادثات و سانحات
دس اور گیارہ جنوری کی درمیانی شب رات بارہ بجکر تیس منٹ کے لگ بھگ کراچی کے قریب ’سپر ہائی وے‘ پر مسافر بس اور آئل ٹینکر کے درمیان ہوئی ٹکر سے 67 افراد ہلاک ہوئے‘ اِس حادثے کے سولہ گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے حادثے کی تفتیش کرانے کے احکامات صادر کرتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لئے مالی امداد یعنی ہر مرنے والے کے لئے دو دو لاکھ روپے کا اعلان کیا۔ تفتیشی ٹیم نے ابتدائی تحقیقات کے بعد جو نتائج دیئے اُن میں سرفہرست تین کا تعلق صرف اِسی ایک حادثے سے نہیں بلکہ خدانخواستہ یہی کچھ ملک کے دیگر حصوں بشمول پشاور میں بھی رونما ہوسکتا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ ’بریکنگ نیوز (فوری خبر)‘ جاری کرنے میں ایک سے بڑھ کر ایک پاکستانی نیوز چینلز نے بھی 67افراد کے کباب ہونے کی خبر کو اُس وقت تک اہمیت نہ دی‘ جب تک پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین کے شریک چیئرمین پرسن آصف علی زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ کو فون کرکے حادثے کے بارے میں تحقیقات کرانے اور مرنے والوں کے لواحقین کے لئے مالی امداد جیسے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری نہیں کیں‘ جس کے بعد حسب توقع نہ صرف پوری صوبائی مشینری حرکت میں آ گئی بلکہ رہنماؤں کی آنکھوں سے آنسو تک چھلک پڑے۔ اتنی اداکاری تو فلموں میں بھی نہیں ہوتی‘ جس قدر ہمارے ہاں کے سیاسی کردار سرانجام دیتے ہیں‘ چونکہ اُس مسافر بس حادثے میں ایک بھی ’وی وی آئی پی(اہم شخص)‘ یا کسی سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت یا اُن کے عزیزواقارب سوار نہیں تھے‘ اِس لئے نہ تو زیادہ واویلا کیا گیا‘ نہ ہی ذرائع ابلاغ کی توجہ اِس حادثے کی جانب مبذول ہو سکی اور نہ ہی حادثے کے محرکات بارے وفاقی یا صوبوں کی سطح پر کوئی ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تاکہ ملک کے دیگر اضلاع میں اِسی نوعیت کے حادثوں کے امکانات اور پبلک ٹرانسپورٹ کو محفوظ بنانے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدامات کئے جا سکیں۔ اِس ایک حادثے نے ایک مرتبہ پھر کئی سوالات اُٹھائے ہیں مثال کے طور پر کیا ہمارے ہاں ’ائرایمبولینس‘ عام لوگوں کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے یا یہ صرف اہم شخصیات کے لئے مخصوص ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ پر نظر رکھنے والا کوئی ادارہ (ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی نامی شے) سرے سے موجود ہی نہیں؟ کیا ایسا ہی حادثہ کسی یورپی ملک میں ہوتا تو بھی وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ضلعی انتظامیہ اِسی قسم کی سردمہری اور سکون کا مظاہرہ کرتیں؟ کیا ایک ہی خاندان کے 9افراد جل کر راکھ ہونے والوں کو اٹھارہ لاکھ دینے کا اعلان کیا جاتا؟ وزیراعلیٰ سندھ کے حکم پر بنائی جانے والی تفتیشی ٹیم نے جن تین اہم و سرفہرست محرکات کی کھوج لگائی ہے اُن کے مطابق 1: مسافر بس کی کھڑکیوں پر پلاسٹک کے شیشے اور لوہے کی جالیاں نصب تھیں‘ جس کی وجہ سے حادثے کے بعد مسافر لوہے کے ڈھانچے میں پھنس کر رہ گئے اور آگ میں جھلسنے کی وجہ سے زیادہ تر اموات ہوئیں۔ 2: بس کے اندر ’سی این جی سلینڈر‘ نصب تھا‘ جس نے آگ کی شدت اور جانی نقصان میں اضافہ کیا۔ 3: فائر بریگیڈ وقت پر نہ پہنچنے سے آگ پر قابو نہ پایا جا سکا۔ اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ اوسطاً 20ہزار 154 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں‘ جن میں فی ٹریفک حادثہ اموات کا تناسب 15.55 افراد ہے!
پاکستان میں آئے روز ایک سے بڑھ کر ایک حادثہ رونما ہوتا ہے اور قومی یاداشت بھی اِس حد تک ضعیف ہو چکی ہے کہ اِن حادثات پر وقتی افسوس کا اظہار کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاتا۔ اتوار کے روز الصبح ہونے والا یہ حادثہ اگرچہ ’سپر ہائی وے (ایم نائن)‘ پر پیش آیا ہے جس کی کل لمبائی 136 کلومیٹر ہے۔ یہ چار قطاری اہم شاہراہ کراچی سے حیدرآباد کو ملاتی ہے اور پشاور سے کراچی تک ’نیشنل ہائی وے (این فائیو)‘ کا حصہ ہے جس کی مجموعی لمبائی 1756 کلومیٹر ہے اور پشاور سے کراچی جانے والے مسافر بسیں اور مال برداری کرنے والی چھوٹی بڑی گاڑیاں اِسی شاہراہ کو استعمال کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا میں ٹریفک حادثات دیگر صوبوں کے مقابلے زیادہ ہیں اور اس کی بڑی وجہ شاہراؤں کی خراب حالت‘ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہونے والی بسوں کی خراب حالت بیان کی جاتی ہے۔ سال 2013ء کے دوران خیبرپختونخوا میں کل 3 ہزار 51 ٹریفک حادثات ہوئے جن میں مجموعی طورپر 1 ہزار 70 مسافر ہلاک ہوئے اور یہی تناسب سال 2014ء کے دوران بھی رہا جس میں اوسطاً ہر حادثے میں کم از کم تین افراد کی موت ہوتی ہے۔ عمومی طور پر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد شہری علاقوں یا اُن مرکزی چوراہوں کے آس پاس دیکھنے میں آتا ہے‘ جہاں اعلیٰ سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کی آمدورفت ہوتی ہے جبکہ بین الاضلاعی یا بین الصوبائی راستوں (روٹس) پر سفر کرنے والی مسافر بسوں میں نہ صرف گنجائش سے زیادہ مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے بلکہ مال برداری کرنے والی گاڑیاں بھی ’اُوورلوڈ (overload)‘ ہونے کے ساتھ ٹریفک قواعد کی پابندی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں۔ مسافر بسوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر اگر سوار نہ ہوتے‘ بسوں کی ساخت میں حادثات کی صورت جانی نقصان کم سے کم رکھنے پر توجہ دی گئی ہوتی تو گیارہ جنوری کی رات اِس افسوسناک حادثے کی خبر اور اعدادوشمار کے بارے میں تفصیلات جان کر پوری قوم صدمے سے نہ گزرتی۔ قوم کو نجی ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑنے والے فیصلہ ساز خواب غفلت سے نجانے کب بیدار ہوں گے‘ نجانے کب اُن کا تجاہل عارفانہ ختم ہوگا۔ تصور کیجئے 67 انسانی جانیں خاکستر ہو گئیں اور ذمے داروں کا تعین نہیں ہوسکا! نہ کوئی سرکاری اہلکار معطل ہوا‘ اُور جمہوریت اور اقدار پر بناء سانس لئے تقاریر کرنے والوں میں سے کسی نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ وہ سب لوگ جو لقمۂ اجل بنے‘ ان کی اہمیت ہی بس اتنی تھی کہ ’نیشنل رجسٹریشن اینڈ ڈیٹابیس اتھارٹی (نادرا)‘ کے پاس اُن کے کوائف درج ہوں گے‘ وہ کسی نہ کسی انتخابی حلقے میں بطور ووٹر رجسٹرڈ ہوں گے اور جن کی اب ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کو مزید ضرورت نہیں رہی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
 
what is notes.io
 

Notes.io is a web-based application for taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000 notes created and continuing...

With notes.io;

  • * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
  • * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
  • * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
  • * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
  • * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.

Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.

Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!

Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )

Free: Notes.io works for 12 years and has been free since the day it was started.


You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;


Email: [email protected]

Twitter: http://twitter.com/notesio

Instagram: http://instagram.com/notes.io

Facebook: http://facebook.com/notesio



Regards;
Notes.io Team

     
 
Shortened Note Link
 
 
Looding Image
 
     
 
Long File
 
 

For written notes was greater than 18KB Unable to shorten.

To be smaller than 18KB, please organize your notes, or sign in.