NotesWhat is notes.io?

Notes brand slogan

Notes - notes.io

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہنگامہ ہے کیوں برپا!
جس سمجھ پر ہر وقت رومال بندھا رہے‘ اُسے اگر تحریک انصاف سمیت پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج کی سمجھ نہ آئے تو اِس پر زیادہ حیران ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر ہی ذکر: وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے۔‘‘ سترہ اگست کو ’سول نافرمانی‘ کا اعلان اور چند ہی منٹ بعد وزیراعظم کے مطالبے سمیت سیاسی و اِنتخابی نظام کی اِصلاح کے لئے اڑتالیس گھنٹوں کا وقت دے کر تحریک انصاف نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جو ملک گیر سطح پر اپنے حامی رکھتی ہے اور اگر اُس کا اثرورسوخ ملک گیر نہ ہوتا تو چیئرمین عمران خان کبھی بھی ایسا اعلان نہ کرتے‘ جو بعد میں اُن کے لئے شرمندگی کا باعث بنتا۔ قابل توجہ بات یہ ہے تحریک انصاف کے احتجاج سے اختلاف رکھنے والے اِس بات کی تو مذمت کر کے رہے ہیں کہ عمران خان کو اِس انتہاء تک نہیں جانا چاہئے تھا لیکن وہ ایسا بالکل بھی نہیں کہتے کہ عمران خان نے اپنی جماعت کی مقبولیت سے زیادہ بڑی بات کہی ہے۔ المیہ ہے کہ برطانیہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی سے محظوظ ہونے والے متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کو کل تک ’آزادی مارچ‘ کے شرکاء کے لئے کھانا بھیجواتے رہے یکایک گونج اُٹھے کہ اُنہیں سول نافرمانی کے اعلان سے مایوسی ہوئی ہے اور عمران خان سے اُنہیں اِس قسم کے فیصلے کی قطعی توقع نہیں تھی‘ جس سے ملک کا شدید اقتصادی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسی قسم کے اقتصادی نقصان کی بات سترہ اگست کو متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے منہ سے بھی سنی گئی جو کہہ رہے تھے کہ احتجاجی پروگراموں کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے وفد نے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک نیک شگون ہے وگرنہ ’آئی ایم ایف‘ کے دورے سے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا۔ اربوں ڈالر کے قرضے اور امداد ملنے کے باوجود پاکستان میں کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس نے مثالی ترقی کی ہو۔ صحت و تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بھی حکومتیں ایک سے بڑھ کر ایک ناکام ہو رہی ہیں لیکن اِس کے باوجود حکمران طبقے کا اصرار ہے کہ اُنہیں جمہوریت کے نام پر‘ اُس آئین کے نام پر حکومت کرنے دیا جائے‘ جو خود اُنہی کا مرتب کردہ ہے اور جس میں خود اُنہی کے لئے اِستثنیٰ بھی موجود ہے!
یہ کیسا آئین اور کیسا جمہوری نظام ہے جس میں عام آدمی کو بنیادی حقوق تک نہیں مل رہے اور جمہوریت کی گردان دُہرانے والے اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے لئے قوم کو گمراہ کن باتیں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ خود اکسٹھ سالہ عمران خان نے سترہ اگست کے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’مجھے اِس بات کی قطعی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کنٹینر کی چھت پر رات بسر کروں‘ میرے لئے آسائش بھری زندگی بسر کرنا کوئی مشکل نہیں‘‘ یہی لائق توجہ مرحلہ فکر ہے کہ ملک کا وسیع ترمفاد اسی میں ہے کہ ایک ’’نیا پاکستان‘‘ تشکیل دیا جائے‘ جس میں انتخابی دھاندلیاں نہ ہوں۔ جہاں سیاسی تعصبات اہلیت پر حاوی نہ ہوں۔ جہاں عوام کی قوت خرید اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں توازن ہو۔ جہاں روزگار کے مواقع سفارش پر نہ دیئے جائیں۔ جہاں نوکریاں فروخت نہ ہوں۔ جہاں سماجی و آئینی انصاف سب کے لئے یکساں ہو۔ جہاں غریب کی جان و مال محفوظ اور اس پر حکمرانی کرنے والے اُسے ایک ایسی جنس تصور نہ کریں جس کی ضرورت اُنہیں صرف اور صرف عام انتخابات کے موقع پر ووٹ ڈالنے کے لئے پڑتی ہے۔ ایسے لاتعداد امتیازات ہیں جن کی وجہ سے موقع شناسوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں نجات حاصل کرنے ضروری ہی نہیں ناگزیر ہو چکا ہے۔ کیا الطاف بھائی کو ملک کی اقتصادی صورتحال کو نقصان پہنچنے کا خیال اُس وقت بھی آتا ہے جب وہ خود پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی و کاروباری شہر کو ہفتوں مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں؟ کیا اسحاق ڈار اِس بات کا بھی جواب دیں گے کہ جن پاکستانی سیاستدانوں نے اربوں ڈالر کی بیرون ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ وہ پیسہ کہاں سے کمایا گیا اور کن غیرقانونی حربوں سے بیرون ملک منتقل کرنے کے بعد وطن واپس لانا چاہئے کیونکہ یہی وہ سرمایہ ہے جس کی وجہ پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد عوام ’خط غربت‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر عمران خان یہ کہتے ہیں کہ سول نافرمانی کی جائے اور ٹیکس بمعہ یوٹیلیٹی بلز وفاقی حکومت کو نہ دیئے جائیں تو ایسا کرنے کی وضاحت بھی اُن کی تقریر کے اَگلے ہی جملے میں کردی گئی‘ جسے سننے کی زحمت نہ کرنے والوں نے وَاویلا مچا رکھا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں نے بیرون ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے؟ کیا غریب ملک کے اَمیر حکمرانوں سے اُن کی دولت کا حساب نہیں ہونا چاہئے؟ کیا ہم اُن سب کو معاف کر دیں جو میری اور آپ کی‘ ہم عوام کی ’غربت و افلاس اور پسماندگی کے ذمہ دار ہیں؟ ’’ چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن۔۔۔خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری؟ (ساحرؔ )‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
 
what is notes.io
 

Notes.io is a web-based application for taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000 notes created and continuing...

With notes.io;

  • * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
  • * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
  • * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
  • * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
  • * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.

Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.

Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!

Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )

Free: Notes.io works for 12 years and has been free since the day it was started.


You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;


Email: [email protected]

Twitter: http://twitter.com/notesio

Instagram: http://instagram.com/notes.io

Facebook: http://facebook.com/notesio



Regards;
Notes.io Team

     
 
Shortened Note Link
 
 
Looding Image
 
     
 
Long File
 
 

For written notes was greater than 18KB Unable to shorten.

To be smaller than 18KB, please organize your notes, or sign in.