NotesWhat is notes.io?

Notes brand slogan

Notes - notes.io

How the Mafias and the "criminal elements" are ruling Peshawar.
ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بے جرم سزا
’’کیا رات ایک بجے کوئی ڈاکٹر آپ کو ’آن ڈیوٹی‘ ملے گا؟ کوئی انجنیئر‘ کوئی کلرک یا دیگر سرکاری اہلکار سحری کے اوقات میں عوام کی خدمت کرنے اپنے اپنے دفتروں میں حاضر ہوں گے جبکہ اُن کی ڈیوٹی کے مقررہ اُوقات بھی ختم ہو چکے ہوں؟‘‘ کم وبیش ایک ماہ سے ’ڈی ایس پی گلبہار‘ کے عہدے پر فائز فرض شناس آفیسر حتی الواسع شائستہ انداز میں ایک ایسی حقیقت کا بیان کر رہے تھے‘ جس کی صداقت کا انکار ممکن نہیں۔ یقیناًپشاور پولیس کے اعلیٰ و ادنی اہلکار جس مستعدی اور فرض شناسی کا ’مظاہرہ‘ کرتے آج دیکھے جا سکتے ہیں‘ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی لیکن کیا یہ محنت ’ثمرآور‘ بھی ہے یا پھر محض حاضری ہی حاضری میں وقت گزر رہا ہے؟ کیا ’تھانہ کلچر‘ تبدیل کرنے کا وعدہ حقیقی معنوں میں ایفاء ہو چکا ہے یا ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے؟ کیا عام آدمی کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اِس اہم ادارے (پولیس) پر بحال ہو چکا ہے اور پولیس عام آدمی کو تحفظ دینے‘ چادر و چاردیواری کے تحفظ میں کامیاب قرار دی جاسکتی ہے؟
وقوعہ برمکان بابرسٹریٹ‘ عشرت سینما روڈ‘ گلبہار‘ بتاریخ چار جولائی بروز جمعہ بعداز افطار مسلح افراد گھر میں گھس کر خواتین کو بالوں سے گھسیٹتے ہیں۔ خواتین کو تھپڑ رسید کئے جاتے ہیں۔ گھر میں موجود تین نوجوانوں کو دبوچ کر گھر سے گلی میں پھینکا جاتا ہے۔ خواتین کی چیخ و پکار اور آہ و فغاں سے پورا محلہ جمع ہو کر تماشائی بن جاتا ہے۔ جن نوجوانوں کو گھروں سے گھسیٹ کر گلی میں دیواروں سے ٹکریں اور اُنہیں زمین پر لٹا کر لاتیں ماری جاتی ہیں وہ ’’یا اللہ معافی‘ یااللہ معافی‘‘ کی التجائیں کرتے ہوئے اپنے ہاتھ جوڑتے ہیں۔ چہروں پر سجی نظر کی عینکیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مسلح افراد کی سانسیں پھولنے اور مارنے والوں کا دم گھٹنے نہیں لگتا۔ جسمانی چوٹوں کے علاؤہ ذہنی طور پر صدمات سے دوچار ہونے والے اِس خاندان کا تعارف یہ ہے کہ یہاں ایک بیوہ خاتون رہتی ہیں‘ جس کے حق مہر میں لکھا ہوا‘ ایک مکان برمحل ’اَندرون گنج گیٹ‘ اُس کی ملکیت ہے اور ایک منظم قبضہ مافیا اُسے ہتھیانا چاہتا ہے۔ تنازعہ گذشتہ کئی برس سے پشاور ہائی کورٹ میں زیرالتوأ ہے اور اب جبکہ فیصلہ قریب ہے اور قبضہ مافیا کی جعل سازی عیاں ہونے کے ساتھ مقدمے کا فیصلہ بیوہ خاتون کے حق میں ہونے والا ہے تو طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے تنگ کرنے کے بعد (چار جولائی کی رات) اُس کے گھر پر مسلح افراد حملہ کر دیتے ہیں۔ وہ گھرانہ جو درودیوار اور آبائی شہر پشاور کو اپنی ’’پناہ گاہ‘‘ سمجھ رہا تھا‘ اِس قدر غیرمحفوظ بھی ہو سکتا ہے! وہ بیوہ خاتون جس نے ’عورت ذات‘ ہونے کو کمزوری نہیں سمجھا اور تمام زندگی جہد مسلسل کرتے ہوئے درس و تدریس کے ذریعے اپنے اُس کنبے کی کفیل رہی جس سے منہ موڑنے والوں کی حقارت اُن کے ساتھ ہی دفن ہوئی۔ وہ نشان فکروعمل جس نے اپنی عصمت و عفت اور ایمانداری کے ساتھ ثابت کیا کہ فرائض کی بجاآوری ہر شے پر مقدم ہے لیکن کیا معاشرے نے اُس معلمہ کی خدمات کا یہ صلہ دیا! کیا اِسی ’’عزت‘‘ کی وہ حقدار تھی کہ مسلح افراد اُس کے گھر گھس کر اُسے بالوں سے گھسیٹیں‘ اُسے پتھر رسید کریں اور اُس کی چیخ و پکار پولیس کے ضمیر کو جھنجوڑنے یا اُسے جگا بھی نہ سکے؟
جرائم پیشہ پورے اطمینان سے تیس منٹ سے زائد ظلم و ستم کی روداد رقم کرنے کے بعد ٹہلتے ٹہلتے پورے اطمینان سے چلتے بنے لیکن اِس ایک واردات میں جن مختلف لیکن ’مربوط جرائم‘ کا ارتکاب کیا گیا‘ اُس پر ایک نہیں بلکہ کئی دفعات لاگو ہوتی ہیں۔ اوّل: وہ مسلح تھے۔ گھر میں گھسے اور چادروچاردیواری کا تقدس پائمال کیا۔ دوئم: مسلح افراد نے خواتین پر ہاتھ اُٹھایا۔ سوئم: مسلح افراد نے گھر میں موجود نہتے مرد و خواتین پر بدترین تشدد کیا‘ جس سے ظاہری زخم بھی آئے۔ چہارم: مسلح افراد نے توڑپھوڑ کی۔ پنجم: مسلح افراد نے باآواز بلند خواتین کو شرمناک گالیاں دیں۔ ششم: مسلح نے اپنے حق مہر کے لئے عدالت میں دائر مقدمہ زبردستی واپس لینے کا مطالبہ دُہرایا۔ ہفتم: مسلح افراد نے اِسی قسم کے مزید حملے کرنے اور حسب منشاء اقدام نہ کرنے پر گھر والوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ ہشتم: مسلح افراد نے اپنے چہرے ڈھانپ نہیں رکھے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہیں نہ تو پولیس کی آمد اور نہ اِس بات کا خوف تھا کہ اہل محلہ (غیرمتاثرین‘ عینی شاہدین) میں سے کوئی اُن کے خلاف گواہی دینے کی جرأت کرے گا کیونکہ ’تھانہ کلچر‘ ابھی تبدیل نہیں ہوا۔ سفیدپوش آج بھی نہیں چاہتے کہ اُن کا واسطہ (کسی بھی صورتحال میں) پولیس سے پڑے اور یہی وجہ ہے کہ ظلم سہنے اور برداشت کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
کیا پشاور ہائی کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس صاحب اِس واردات کا ’اَزخود نوٹس‘ لیں گے‘ جس میں ’’ایک بیوہ خاتون کا حق مہر‘‘ قبضہ مافیا زبردستی ہتھیانا چاہتا ہے جبکہ یہ مقدمہ اُنہی کی عدالت میں زیرالتوأ بھی ہے؟ کیا محترم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اِس واردات کا ’اَزخود نوٹس‘ لیں گے‘ جبکہ اُن کے عقب یعنی صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک شہری رہائشی علاقے میں قبضہ مافیا مبینہ طور پر پولیس‘ پٹواری اور جرائم پیشہ عناصر نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے؟کیا خیراندیش خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ اِس واردات کا ’اَزخود نوٹس‘ لیں گے‘ جس میں ڈی ایس پی‘ ایس ایچ اُو اور تھانہ محرر کو بروقت اطلاع دینے کے باوجود مسلح حملہ آوروں کو گرفتار کرنے پولیس ایک گھنٹے بعد پہنچی؟کیا آقائی پشاور پولیس کے سربراہ اِس واردات کا ’اَزخود نوٹس‘ لیں گے‘ جس کی تھانہ گلبہار میں درج ’ایف آئی آر‘ میں صرف ایک دفعہ لگائی گئی ہے‘ حالانکہ کئی ایک ضمنی دفعات بھی لگائی جانی چاہیءں تھیں؟ کیا عمائدین شہر پر مبنی ’سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی‘ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان اور عورت فاؤنڈیشن اِس واردات کا ’اَزخود نوٹس‘ لے گی جس میں ایک بیوہ خاتون بے بسی کے ساتھ ظلم کرنے والی طاقتوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے؟کیا ’این اے ون‘ اور ’پی ایف ٹو‘ سے تعلق رکھنے والے قانون ساز اداروں کے منتخب عوامی نمائندے اِس واردات کا ’اَزخود نوٹس‘ لیں گے‘ کہ کس طرح ایک حوا کی بیٹی خود کو بے یارومددگار محسوس کر رہی ہے اور قانون اُس کی مدد نہیں کر رہا؟ یاد رہے کہ (تادم تحریر) پچاس گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی پولیس مسلح افراد میں سے کسی کو نہ تو گرفتار کر پائی ہے اور نہ ہی متاثرین کے اصرار کے باوجود مزید جرائم سے متعلق دفعات کا ’ایف آئی آر‘ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پولیس کے دل میں نرم گوشہ اور ہمدردیاں کس فریق کے لئے ہیں‘ قارئین کے لئے یہ سمجھنا دشوار نہیں رہا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
 
what is notes.io
 

Notes.io is a web-based application for taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000 notes created and continuing...

With notes.io;

  • * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
  • * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
  • * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
  • * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
  • * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.

Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.

Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!

Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )

Free: Notes.io works for 12 years and has been free since the day it was started.


You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;


Email: [email protected]

Twitter: http://twitter.com/notesio

Instagram: http://instagram.com/notes.io

Facebook: http://facebook.com/notesio



Regards;
Notes.io Team

     
 
Shortened Note Link
 
 
Looding Image
 
     
 
Long File
 
 

For written notes was greater than 18KB Unable to shorten.

To be smaller than 18KB, please organize your notes, or sign in.