NotesWhat is notes.io?

Notes brand slogan

Notes - notes.io

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تاریخ وَفا
حقائق بصورت کہانی اور کہانی بشکل یاداشت بہت سی سنی سنائی باتوں کی طرح گردش کرتے محو ہونا معمول بن چکا ہے۔ ایک کے بعد ایک زیادہ سنگین نوعیت کی واردات اور اس کے محرکات جاننے کی کوششیں بھی سرد خانے کی نذر ہو جاتی ہیں۔ سولہ مئی کے روز پشاور کے کوہاٹ روڈ سے ملحقہ شاہراہ پر جامعہ مسجد ابوالبرکات سیّد حسن بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کے باہر قتل ہونے والے پولیس رضاکار کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن اُس کے پسماندگان کی کفالت اور اہل خانہ کی معاشی مشکلات کم کرنے کے لئے ’شہدأ پیکج‘ کے مطالبے پر مشتمل دبی ہوئی صرف ایک ہی آواز سنائی دی‘ جس پر عمل درآمد تو دور کی بات متعلقہ حکام نے اخبارات کے اندرونی صفحات پر شائع ہونے والے اُس ’دو کالم‘ کے بیان کو پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی ہو گی کیونکہ ’عابد حسن‘ ایک عام آدمی تھا‘ جس نے نماز جمعہ کے ایک اجتماع کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور ایک ایسے ممکنہ حملے کو روکا‘ جس سے زیادہ جانی نقصان ہو سکتا تھا اور خدانخواستہ کسی بزرگ شخصیت کے قتل کی صورت پشاور میں عمومی اَمن و امان بھی فضاء بھی الگ سے متاثر ہوتی۔ کاروبار بند ہوتے۔ مظاہرے اور اِحتجاج کا سلسلہ پورے ملک تک پھیل جاتا اور عمومی طور پر اِس طرح کے غم وغصے پر مبنی جذبات کا اِظہار کرنے والوں کے ہاتھوں مالی نقصانات الگ ہوتے ہیں۔’’مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دُنیا۔۔۔جب بھی اِس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی۔(محسن نقوی)‘‘
آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘ کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت سے روحانی فیوض و برکات پانے والے ہزاروں مریدوں اور عقیدتمندوں کے لئے یہ امر باعث تشویش ہے کہ معروف بزرگ کے مزار اور ملحقہ مسجد پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اِس مقصد کے لئے نماز جمعہ کا انتخاب زیادہ تکلیف کا باعث ہے جبکہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد عام ایام کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ یقینی امر تھا کہ حملہ آوروں کا نشانہ سجادہ نشین‘ امام مسجد اور دیگر افراد تھے‘ جن میں کئی نامور شخصیات بھی ہیں جن کا معمول ہے کہ وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے باقاعدگی سے مذکورہ مسجد جاتے ہیں اور اِس موقع پر ذاتی حفاظتی انتظامات بھی معطل کر دیئے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس رضاکار ’عابد حسن سکنہ ہشتنگری‘ کے ذمے سرکاری طورپر جامع مسجد کی حفاظت سپرد نہیں کی گئی تھی لیکن وہ والہانہ عقیدت و احترام کی وجہ سے ہر جمعہ مسجد کے واحد داخلی دروازے پر کھڑا ہو کر نہ صرف آنے والوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتا تھا بلکہ بلاامتیاز جامہ تلاشی لینے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا اور سبھی اُس کے ساتھ تعاون کرتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عابد حسن کی جگہ سرکاری طور پر تعینات پولیس اہلکار کہاں تھے جنہیں ہر نماز جمعہ کے اجتماع کی حفاظت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں؟ حملہ آور موٹرسائیکل پر سوار تھے اور وہ واردات کے بعد موٹرسائیکل ہی پر بیٹھ کر فرار ہوئے لیکن اُن کا پیچھا کرنے والے رائیڈر (گشتی) پولیس اہلکاروں نے بروقت کارروائی کیوں نہیں کی؟ پولیس اہلکاروں کے پاس ’(ڈیجیٹل) وائرلیس‘ کا نظام موجود ہے‘ حملے کے چند سیکنڈ بعد یا موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے موٹرسائیکل پر فرار ہونے والے حملہ آوروں کی اطلاع اور شناخت ’مرکزی کنٹرول روم‘ کو دی تاہم اِس پر کارروائی کا کوئی نتیجہ کیوں برآمد نہ ہوسکا؟ کیا مسجد کے باہر تعینات پولیس اہلکار واردات میں ملوث تھے اور یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے حملہ آوروں کا نہ تو پیچھا کیا اور نہ ہی اُن پر فائرنگ کرکے کسی ایک کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کی تاکہ فرقہ واریت پھیلانے کی اِس مذموم کوشش کا بھانڈا پھوڑا جا سکتا۔ پشاور کے امن کے لئے مستقل خطرہ بنے ہوئے درپردہ ہاتھ بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے جو وار کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو بلاتفریق نشانہ بنا کر نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ درحقیقت فروعی اختلافات اِس انتہاء کے نہیں کہ مسالک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوں لیکن کچھ عناصر مسالک کی آڑ میں ایسی وارداتیں کرتے ہیں جس سے اسلام بدنام ہو اور غیروں کو انگلیاں اُٹھانے کا موقع مل سکے۔ یقیناًپشاور متحد ہے اور ایسے اسلام دشمنوں کی سازشوں سے بخوبی واقف بھی‘ جنہیں چھپ کر وار کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ اِس نازک مرحلے پر قربانیاں پیش کرنے والوں کو نظرانداز یا وقتی طور پر اُن کی خدمات کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے پر اکتفا کرنے کا نہیں بلکہ ’دامے درہمے سخنے‘ ایسے کرداروں کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی ضرورت ہے‘ جن کا پیغام دائمی ہے‘ جو اپنے خون کی مقدس دھاروں سے ہتھیاروں پر حاوی ہوئے اور ثابت کر دیا کہ ’’ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی۔۔۔رنگ برسیں گے‘ زمیں دنگ دکھائی دے گی۔۔۔بارش خون شہیداں سے وہ آئے گی بہار۔۔۔ساری دھرتی ہمیں گلرنگ دکھائی دے گی۔ (قتیل شفائی)‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
 
what is notes.io
 

Notes.io is a web-based application for taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000 notes created and continuing...

With notes.io;

  • * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
  • * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
  • * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
  • * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
  • * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.

Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.

Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!

Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )

Free: Notes.io works for 12 years and has been free since the day it was started.


You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;


Email: [email protected]

Twitter: http://twitter.com/notesio

Instagram: http://instagram.com/notes.io

Facebook: http://facebook.com/notesio



Regards;
Notes.io Team

     
 
Shortened Note Link
 
 
Looding Image
 
     
 
Long File
 
 

For written notes was greater than 18KB Unable to shorten.

To be smaller than 18KB, please organize your notes, or sign in.