NotesWhat is notes.io?

Notes brand slogan

Notes - notes.io

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قابل اِعتماد نگرانی
محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبرپختونخوا کی جانب سے اَساتذہ کے کوائف مرتب کرنے کے عمل میں خواتین معلمات کو اعتراض ہے کہ اُن سے ذاتی موبائل نمبر اور دیگر معلومات حاصل کرنے کے بعد اندیشہ ہے کہ ان کا غلط استعمال ہوسکتا ہے اور اس بات کی کوئی گارنٹی بھی نہیں دی جارہی ہے کہ خواتین کے بارے میں جو معلومات اکٹھا کی جا رہی ہیں وہ محفوظ رہیں گی اور ملازمتی امور کے علاؤہ اِن کا استعمال نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق صوبہ میں سرکاری تعلیمی اداروں میں ایک ارب روپے کی لاگت سے ’نگرانی کا نیا نظام (مانیٹرنگ یونٹ)‘ بنایا جا رہا ہے جو خودمختار ہوگا اور اسی نگرانی کے لئے ہر معلم بشمول خواتین کے ضروری ہوگا کہ وہ اپنا ذاتی موبائل نمبر‘ قومی شناختی کارڈ کی نقل (فوٹوکاپی) اور گھر کا پتہ داخل دفتر کرے۔‘‘ جن اساتذہ نے نگرانی کے نئے نظام کو ’ناقابل اعتماد‘ قرار دیتے ہوئے اِس پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے اُن کی دلیل ہے کہ ’’محکمہ تعلیم سے وابستہ سرکاری ملازمین سے رابطہ صرف دفتری اوقات متعلقہ اِداروں میں کیا جائے‘ جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور ملازمین کی نگرانی کے لئے اُن سے ذاتی طورپر رابطے نہ کئے جائیں‘کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ایک تو بدعنوانی کا اِمکان پیدا ہوتا ہے اور دوسرا ملازمین کے ذاتی کوائف کا مقصد واضح نہیں کیا گیا‘ جس سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اَگر نگرانی کی ضرورت ہے‘ تو وہ صرف محکمہ تعلیم کے ملازمین ہی کی کیوں ہو رہی ہے لہٰذا اگر صوبائی حکومت اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا چاہتی ہے تو اِس سلسلے میں جملہ اِداروں کی نگرانی کا ایک جیسا طریقہ کار وضع کیا جائے۔‘‘ سرکاری ملازمین کے خدشات سوفیصد درست اور جائز ہیں۔ سرکاری ملازمین کے کوائف پہلے ہی ’نیشنل رجسٹریشن اینڈ ڈیٹابیس اتھارٹی (نادرا)‘ کے پاس محفوظ ہیں‘ جن کی بنیاد پر نہ صرف اُنہیں ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ‘ جاری کیا جاتا ہے بلکہ اُن کے اہل خانہ کی شناختی دستاویزات کا ریکارڈ بھی ’نادرا‘ کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جملہ سرکاری ملازمین کی شب و روز کا جائزے لیا جائے اور بات صرف درس و تدریس تک محدود نہ رکھی جائے جبکہ محکمہ تعلیم وابستہ ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ ’امتحانی نتائج کی روشنی میں‘ لیا جائے۔ اگر کسی سکول‘ کالج یا جامعات کے سالانہ اِمتحانی نتائج دیگر ہم عصر نجی اداروں کے مقابلے تسلی بخش نہیں تو وہاں کے اَساتذہ سے اِس بارے سختی سے سرزنش کی جائے کیونکہ سرکاری ملازمین نجی اِداروں کے مقابلے زیادہ تنخواہیں اور مراعات باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں لیکن وہ دل و جان سے محنت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ متوسط طبقات بھی نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے کسی وجہ سے ’سرکاری اداروں‘ میں تعلیم حاصل کریں اور یوں اپنا پیٹ کاٹ کر تعلیم و صحت پر خرچ کرنا مجبوراً برداشت کیا جارہا ہے۔ عمومی تجویز کیا جاتا ہے کہ جب تک ایسی قانون سازی نہیں کی جاتی جس کے ذریعے سیاستدانوں‘ افسرشاہی اور جملہ سرکاری ملازمین کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے ’بال بچوں‘ کو سرکاری اداروں میں تعلیم دلوائیں‘ راتوں رات اِن اداروں کی حالت بدل جائے گی۔ ہوتا یہ رہا ہے کہ اَساتذہ کی بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئیں اور کچھ عجب نہیں ہوگا کہ اگر جملہ سرکاری ملازمین کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کرائی جائے تو بہت سے ایسے بھی ’برآمد‘ ہوں جنہوں نے دروغ گوئی سے کام لیا ہو۔ جس ملک میں قومی جہازراں اِدارہ کے پائلٹ اور دیگر تکنیکی ماہرین کی ڈگریاں جعلی نکلیں‘ وہاں کے تمام اساتذہ کیونکر معاشرتی خرابیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
کسی معاشرے سے اگر بزرگوں کا اَدب اُٹھ رہا ہے۔ اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ بدعنوانی اور حرام خوری کو جائز سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ نقل اور سفارش نے اہلیت کی جگہ لے لی ہے۔ امتیازی طرز تعلیم اور تعصبات عام ہیں۔تو اِس معاشرتی زوال کے لئے صرف اور صرف ایک ہی کردار ذمہ دار ہے اور وہ اُستاد کا ہے جس نے اپنے مقام اور اہمیت کی نہ تو حفاظت کی اور نہ ملک و قوم کی تعمیر کے لئے اپنی ذات سے قربانی دینے کا آغاز کیا۔ یقیناًسارے اساتذہ کام چور یا نااہل نہیں ہو سکتے لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکثریت اپنے پیشے سے انصاف نہیں کر رہی۔ کسی نجی تعلیمی ادارے میں معلم یا معلمہ کی تنخواہ پندرہ سے تیس ہزار روپے ہوتی ہے جبکہ سرکاری اداروں میں چالیس سے ساٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے اپنے حکومت کو کوائف تک دینے کے لئے تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ ماضی کی طرح جو کوئی جہاں ہے اور جیسا بھی ہے اسی ڈگر پر چلتا رہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کو سخت‘ مشکل اور ایسے کڑوے فیصلے کرنا ہوں گے جن سے اُس کی مقبولیت کو وقتی طور پر نقصان پہنچے گا‘ اساتذہ کی تنظیمیں احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں بھی کریں گے لیکن ’شعبہ تعلیم‘ کو لاحق امراض کا علاج دل وجذبات پر جبر کے ساتھ ’کڑوی گولی‘ کے بناء ممکن نہیں رہا۔
     
 
what is notes.io
 

Notes.io is a web-based application for taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000 notes created and continuing...

With notes.io;

  • * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
  • * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
  • * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
  • * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
  • * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.

Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.

Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!

Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )

Free: Notes.io works for 12 years and has been free since the day it was started.


You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;


Email: [email protected]

Twitter: http://twitter.com/notesio

Instagram: http://instagram.com/notes.io

Facebook: http://facebook.com/notesio



Regards;
Notes.io Team

     
 
Shortened Note Link
 
 
Looding Image
 
     
 
Long File
 
 

For written notes was greater than 18KB Unable to shorten.

To be smaller than 18KB, please organize your notes, or sign in.