NotesWhat is notes.io?

Notes brand slogan

Notes - notes.io

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تاثیرِ مسیحائی
صوبائی دارالحکومت پشاور کے تین بڑے سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی کا موازنہ ایک دوسرے سے کرنے کا نتیجہ بس یہی برآمد ہوگا کہ ’اِن سب کی کارکردگی ایک جیسی ہے۔‘ جہاں مریضوں سے زیادہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو اپنی مراعات اور حقوق کی پڑی ہو‘ وہاں کے بارے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ تازہ ترین واقعہ یہ پیش آیا ہے کہ آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن اور ڈاکٹر کے درمیان موبائل فون کال پر تنازعہ کی وجہ سے ’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ نے سولہ اپریل کا دن ہسپتال میں علاج معالجے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ چند سینئر ڈاکٹرز بھی کسی نہ کسی وجہ سے اِس احتجاج کا حصہ بن گئے۔ کچھ ہسپتال تشریف نہیں لائے اور کچھ نے آنے کے باوجود مریضوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ عجب ہے کہ ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کی ہڑتال کے باعث ایک 80 سالہ مریض کا بروقت علاج نہ ہو سکا اور اُس کی موت واقع ہوگئی۔ توقع تھی کہ ڈاکٹر انوار الحق اور اُو ٹی ٹیکنیشن خالد خان کے خلاف پیشہ ورانہ فرائض سے غفلت پر محکمانہ نہیں ’مجرمانہ دفعات‘ کے تحت مقدمات درج کرکے انہیں قرارواقعی سزاؤں کے لئے گرفتار کر لیا جائے گا اور اِن دونوں کی نوکریاں اور واجبات تلف کرتے ہوئے اِن کی جملہ تعلیمی اسناد بھی منسوخ کردی جائیں گی تاکہ یہ آئندہ اپنے نام نہاد علم اور تجربے کو بنیاد بنا کر ’مریضوں‘ کا یوں استحصال نہ کرسکیں۔کیا دوران آپریشن (جراحت) طبی عملے کو موبائل فون کال سننا یا کرنا چاہئے؟ کیا آپریشن تھیٹر میں جہاں ہاتھوں پر دستانے اور سر و چہروں پر غلاف (ماسک) چڑھے ہوتے ہیں وہاں موبائل فون لیجانے کی ممانعت نہیں ہونی چاہئے؟ کیا علاج کرنے والے اپنے پیشے سے جڑے باریکیوں اور حساسیت کے بارے میں خاطرخواہ شعور رکھتے ہیں؟ کیا انسانی زندگی کا کوئی نعم البدل ہے‘ جس کا علاج کرنے والے اِسے اتنا سادہ (آسان) سمجھتے ہیں؟ کیا کوئی ڈاکٹر یا معاون اُس وقت بھی موبائل فون کا استعمال کرے گا‘ جبکہ اُسے اپنے والد‘ والدہ یا کسی قریبی عزیز کی جراحت یا طبی معائنہ کرنا ہوِ؟ اگر اِن سبھی سوالات کا جواب نفی ہے تو پھر خامی اصول و قواعد اور قوانین بنانے والوں کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہوگا کہ آپریشن تھیٹر میں موبائل فون کا استعمال کیا گیا ہو۔ دوسروں کی جان کو حقیر سمجھنے کی اس سے بدتر مثال کوئی دوسری نہیں ہوسکتی‘ جو طب کے پیشے کی بھی توہین کے مترادف ہے۔ لہٰذا‘ ایسے (تمام) شقی القلب اور خودغرض ذہنیت رکھنے والوں سے سرکاری علاج گاہوں کو پاک کرنا ہی دوسروں کے لئے سبق آزما اور نشان عبرت ہو سکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی بھی نجی ہسپتال میں اِس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے؟ ایک وقت تھا جب ڈاکٹر نجی علاج گاہوں میں صرف معائنہ کیا کرتے تھے جبکہ آپریشن (جراحت) اور دیگر پیچیدہ اور لمبے علاج کے لئے سرکاری ہسپتالوں کے وسائل استعمال کئے جاتے تھے۔ اب تو ’الاماشاء اللہ‘ ڈاکٹروں نے صرف کلینک نہیں نجی ہسپتال قائم کر لئے ہیں جہاں آنکھوں سے لیکر گردوں اور زچہ و بچہ تک پیچیدگیوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ نجی بلڈ بینک‘ تجزیہ گاہیں‘ الٹراساؤنڈ‘ سی ٹی اسکین اور انواع و اقسام کی ٹیکنالوجی کے ذریعے امراض کی تشخیص کا عمل بھی نجی اِداروں ہی کے ہاتھ ہے‘ جن سے استفادہ کرنے والوں میں سرمایہ داروں کے علاؤہ ایسے متوسط اور غریب بھی ہوتے ہیں جو اپنے عزیزوں کو کھونا نہیں چاہتے اور اپنا سب کچھ بیچ کر ’علاج معالجے‘ پر لگا دیتے ہیں۔
اِس حقیقت پر جس قدر افسوس کا اظہار کیا جائے اُتنا ہی کم ہوگا کہ جنوب مشرق ایشیاء کا قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ’پشاور‘ جو کبھی گندھارا تہذیب کا مرکز ہوا کرتا تھا‘ ایک وقت تک سیروسیاحت کا مرکز رہا۔ یہاں دنیا بھر سے سیاح بدھ مت کی تاریخ اور مذاہب کے ارتقاء کا مطالعہ کرنے آتے تھے لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے اور پشاور آنے والوں کی بڑی تعداد نجی ہسپتالوں سے ’علاج معالجے‘کے لئے آتی ہے۔ حیات آباد سے چغل پورہ تک درجنوں کثیرالمنزلہ ہسپتالوں کے اردگرد اِس نئی قسم کی سیاحوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ عام امراض کا علاج بھی لاکھوں میں کرنے والوں کے علاؤہ نجی علاج گاہوں کے قریب رہائشی سہولت اور ادویات فروشی جیسا ’منافع بخش کاروبار‘کوئی دوسرا نہیں۔ ڈاکٹر ایسی اَدویات لکھتے ہیں جو صرف اُنہی کی بتائی ہوئی یا قریب ترین میڈیکل سٹور (دوا خانے) کے علاؤہ کسی دوسری جگہ سے نہیں ملتی۔ دوائی لکھتے ہوئے ایسے متروک رسم الخط کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جو صرف ایک ہی دکاندار سمجھ سکتا ہے۔ ادویہ ساز ادارے لالچ کے اس دھندے میں برابر کے شریک ہیں اور ڈاکٹروں کی کسی خواہش (فرمائش) کو ناجائز نہ سمجھتے ہوئے اُسے پورا کرنے میں ذرا تاخیر نہیں کرتے۔ ایک طرف حکومت ہے جو صحت کے شعبے میں انقلابی اصلاحات لانے کے لئے کوشاں ہے اور دوسری طرف اپنی ذات و مفاد کے اسیر رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حرص و طمع کے اِس عمومی رجحان اور ماحول میں تبدیلی کے لئے ’تبدیل‘ راستے اختیار کرنا پڑیں گے۔ سزا و جزأ کا نظام متعارف کرنے کے لئے ضروری قانون سازی کی جائے اور بالخصوص سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال کرنے پر نوکری سے برخاستگی کے قواعد وضع کئے جائیں۔ نجی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ 1: نجی علاج گاہوں میں من مانی معائنہ اور آپریشن یا طبی سہولیات کی فیسیں وصول کرنے کی راہ روکنے کے لئے حکومت کی طرف سے جاری کردہ ’لیٹر ہیڈ‘ پر مریضوں کی تشخیص اور دوائیاں تجویز کریں۔ 2: نجی علاج گاہوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ مریضوں کا کمپیوٹررائزڈ ریکارڈ جمع کریں اور ہر دن کے اختتام پر اِس ریکارڈ کا صوبائی حکومت کے متعلقہ محکمے کی ڈیٹابیس (سرور) میں اندراج کیا جائے۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت ایک ویب سائٹ یا (آن لائن) سافٹ وئر بھی متعارف کرائے‘ جس کی تیاری سافٹ وئر انجنیئر کے لئے چند گھنٹے سے زیادہ کا کام نہیں۔ زائدالمیعاد اور جعلی ادویات کے علاؤہ غیرمستند تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) کے خلاف کارروائی بھی ’آن لائن‘ نظام کی وجہ سے ممکن ہو سکے گی۔ 3: ڈاکٹروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ دوائی (مصنوعات) کا نام لکھنے کی بجائے اُن کے فارمولے لکھیں تاکہ ادویہ ساز اداروں کی اجارہ داری ختم اور ایک ہی فارمولے کی سستی ادویات تک رسائی ممکن ہو سکے۔ 4: ہسپتالوں اور بالخصوص آپریشن تھیٹرز میں موبائل فون جیمرز (jammers) نصب کئے جائیں۔ جب تک سی سی ٹی وی کیمروں کی صورت ڈاکٹروں طبی معاون عملے کے سر پرتلوار نہیں لٹکائی جائے گی اور عام آدمی کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے والوں کو ’سنجیدگی‘ اختیار کرنے پر ’’مجبور‘‘ نہیں کیا جائے گا‘ وہ تبدیلی نہیں آئے گی‘ جس کا خواب (گیارہ مئی دوہزارہ تیرہ کے عام انتخابات سے قبل) دیکھنے اور دکھانے والوں کی نیند کا دور تاحال باقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
 
what is notes.io
 

Notes.io is a web-based application for taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000 notes created and continuing...

With notes.io;

  • * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
  • * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
  • * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
  • * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
  • * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.

Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.

Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!

Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )

Free: Notes.io works for 12 years and has been free since the day it was started.


You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;


Email: [email protected]

Twitter: http://twitter.com/notesio

Instagram: http://instagram.com/notes.io

Facebook: http://facebook.com/notesio



Regards;
Notes.io Team

     
 
Shortened Note Link
 
 
Looding Image
 
     
 
Long File
 
 

For written notes was greater than 18KB Unable to shorten.

To be smaller than 18KB, please organize your notes, or sign in.