NotesWhat is notes.io?

Notes brand slogan

Notes - notes.io

خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کی اگرچہ تاریخوں کا اعلان ابھی نہیں ہوا‘ لیکن رُکن صوبائی اسمبلی سردار مہتاب اَحمد خان کے گورنر بننے سے یہ نشست خالی ہوئی ہے اور اُن کی جانب سے اشارے کنائیوں میں جن دو افراد کے نام گردش میں ہیں‘ وہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دیرینہ کارکن نہیں بلکہ موصوف کے اپنے ہی قریبی عزیز ہیں۔ کیا پارٹی کارکنوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی؟ کیا وہ صرف ووٹ دینے والے اور غلاموں کی طرح فیصلے ماننے کے پابند ہوتے ہیں؟ کیا یہ خدائی قانون ہے کہ متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والا کارکن ہمیشہ کارکن ہی رہے؟ اگر جمہوریت کی بجائے سیاسی غلامی والی سوچ ’نواز لیگ‘ میں پائی جاتی ہے تو ’تحریک انصاف‘ بھی اِس سے مبرا نہیں‘ جس کی جانب سے ’پی کے پینتالیس‘ کے لئے ایک ایسے فرد کو نامزد کرنے پر اتفاق ہوتا نظر آرہا ہے جس کا تعلق متعلقہ انتخابی حلقے (’سرکل بکوٹ‘) کی کسی بھی یونین کونسل سے نہیں۔ اگرچہ بطور ڈومیسائل (پیدائش کا مقام) نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں آگے رہنما کا تعلق ضلع ایبٹ آباد سے ہے لیکن وہ اپنی کاروباری مصروفیات کی بناء پر زیادہ تروقت دیگر شہروں میں بسر کرتے ہیں جس کی بناء پر عام آدمی یا عام پارٹی کارکنوں سے اُن کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہے جسے سیاسی تجزیہ کار ’کامیابی کے انتہائی کم امکانات کی بڑی وجہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک اِنصاف ’پلیٹ‘ میں رکھ کر ایک مرتبہ پھر صوبائی اسمبلی کی نشست نواز لیگ کو بطور تحفہ دینا چاہتی ہے۔ ’این اے ون (پشاور ون)‘ پر تحریک اِنصاف کے ایک غلط فیصلے ہی کی طرح ’پی کے پینتالیس‘ کے حوالے سے بھی فیصلہ صرف غلط ثابت نہیں ہوگا بلکہ یہ ہزارہ ڈویژن میں پارٹی کی کشتی ڈبونے کے مترادف اقدام ہوگا۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہزارہ کی منتخب قیادت اور پرخلوص کارکنوں کے خیالات کو سنا جائے اور پارٹی نامزدگی کرتے ہوئے ’ڈرائنگ رومز‘ کی سیاست کرنے والے ماضی کی اُن غلطیوں کو دُہرانے سے اجتناب کریں گے‘ جس سے ماضی میں تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہوئی اور حال میں اس کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے؟
پی کے پینتالیس‘ آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے جسے عرف عام میں ’سرکل بکوٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اِن یونین کونسلوں میں دلولہ‘ بوئی‘ ککمنگ‘ پٹن‘ بکوٹ‘ بیروٹ‘ پلک اور نمل شامل ہیں اور یہاں سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے صدور اور نمائندہ وفود پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہیں کہ وہ کسی بھی درآمدشدہ (ایمپورٹیڈ) شخص کو بطور اُمیدوار قبول نہیں کریں گے۔ پارٹی قائد عمران خان سے ملاقات کے دوران بھی یہ بات نہایت مؤدب انداز میں اُن کے گوش گزار کی گئی کہ ’’جناب عالیٰ‘ سرکل بکوٹ کی نمائندگی کا حق صرف اور صرف اُسی شخص کو ہونا چاہئے‘ جس پر مقامی کارکنوں کا اتفاق رائے ہو۔‘‘ یہ کوئی پیچیدہ سائنسی مسئلہ نہیں کہ جس کا حل اس قدر مشکل یا وقت طلب ہو۔ پارٹی کی سطح پر مشاورتی اجلاس طلب کیاجائے تو نامزدگی کے فیصلہ اور قیادت کا بارے میں ابہام دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکتا ہے۔ عجب ہے کہ ایک ایسے اُمیدوار کو پہاڑی علاقوں پر مشتمل دور دراز کی نشست کے لئے نامزد کر دیا جائے‘ جبکہ سال 2002ء کے عام انتخابات میں اُس نے ایک گنجان آباد شہری علاقے سے صرف 4687 ووٹ حاصل کئے تھے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے آبائی حلقے کے ’ایک لاکھ نو ہزار دو سو چوون‘ میں سے ’چار ہزار چھ سو ستاسی‘ ووٹ حاصل کرے بھلا وہ کیسے کسی دوسرے انتخابی علاقے کے لئے ’کامیاب گھوڑا‘ ثابت ہوسکتا ہے جس سے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت ’’اَچانک‘‘ اور ’’پراسرار انداز‘‘ میں اِس قدر اُمیدیں لگائے بیٹھی ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ دیگر بڑی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف کے فیصلے بھی ’ڈرائنگ رومز‘ میں ہونا شروع ہو گئے جو کسی بھی طور ’انقلابی تبدیلی لانے اور سیاسی کلچر تبدیل کرنے کے لئے کوششیں‘ کرنے کا دعویٰ رکھنے والی ایک جماعت کے خوش آئند نہیں۔ واضح رہے کہ ڈرائنگ روم کی ’بدنام زمانہ اِصطلاح‘ کی اِیجاد سیاست میں متحرک Lobbies کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو مخصوص سیاسی مفادات رکھنے والے اُن گروہوں کی ترجمان ہوتی ہے جو کسی سیاسی جماعت پر اپنے ایسے فیصلے مسلط کرتے ہیں جن کا تعلق کارکنوں کی سوچ سے نہ ہو۔ عموماً یہی دیکھا جاتا ہے کہ ایسے فیصلے مسلط کرنے سے کارکنوں کے حوصلے پست اور جدوجہد کرنے کے عزم کا جھکاؤ ذاتی مفادات یا مصلحتوں کی طرف ہو جاتا ہے۔
بائیس اپریل شام گئے تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ’پی کے 45‘ کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے چند سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اُن کا مؤقف سنا لیکن درون خانہ حالات سے واقف کاروں کا کہنا ہے وہ ذہنی طور پر پہلے ہی فیصلہ کرچکے تھے اِس لئے دلائل پر بہت کم بحث ہوئی۔ سرکل بکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ’مقامی اُمیدوار‘ کو ’لالی پاپ‘ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’’آپ تو بہت سمجھ دار ہیں‘ آپ کی تحریک انصاف سے سیاسی و دلی وابستگی اور قربانیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں‘ (لہٰذا ضمنی انتخاب کے لئے پارٹی ٹکٹ کی بجائے) آپ کو تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا مشیر بنا دینا چاہئے۔‘‘ یادش بخیر گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ’پی کے پینتالیس‘ پر رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 1 لاکھ 19 ہزار 99 تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ حتمی نتیجے کے مطابق یہاں سے 45.89 فیصد یعنی 65 ہزار 374 افراد نے اپناحق رائے دہی استعمال کیا تھا اور کامیابی پاکستان مسلم لیگ نواز کے نامزد اُمیدوار سردار مہتاب احمد خان کے حصے میں آئی تھی جنہوں نے 27 ہزار 806 ووٹ حاصل کئے تھے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف کے نامزد اُمیدوار عبدالرحمن خان عباسی رہے جنہوں نے 14 ہزار 562 ووٹ لئے۔ قابل ذکر ہے کہ ’پی کے پینتالیس‘ سے کل 11 اُمیدواروں نے عام انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لیا تھا اور ان میں سے 5 آزاد جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین اور متحدہ قومی موومنٹ نے کہیں اعلانیہ تو کہیں غیراعلانیہ تحریک انصاف کے اُمیدوار کی حمایت کی تھی یوں مقابلہ ’ون ٹو ون‘ نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان رہا لیکن تحریک انصاف کی کامیابی نہ ہونے کی بڑی وجہ وہ مقامی کارکنوں میں پائے جانے والے وہ اختلافات تھے‘ جنہیں حل کرنے کے لئے پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے بہت ہی کم توجہ دی گئی۔ اگر آزاد اُمیدوار اَقرار اَحمد عباسی (حاصل کردہ ووٹ 4124)‘ جماعت اِسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سعید اَحمد عباسی (حاصل کردہ ووٹ 5574) اور آزاد اُمیدوار نذیر اَحمد عباسی (حاصل کردہ ووٹ 8276) کو یکجا کر لیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ تحریک انصاف کا نامزد اُمیدوار کامیاب نہ ہوتا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ تحریک انصاف کا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جو اِتحاد عام اِنتخابات کے بعد کیا گیا‘ وہ انتخابات سے قبل نہ ہو سکا۔ صاف ظاہر ہے کہ کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو تحریک انصاف کی طاقت کو تقسیم اور اُنہیں قانون ساز ایوانوں سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کا خیال ’پی کے پینتالیس‘ پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے ایک نادر موقع پر خیال رکھنا ہے بلکہ بہت زیادہ خیال رکھنا ہے۔
تحریک اِنصاف رواں ماہ (پچیس اپریل) اپنا ’18واں یوم تاسیس‘ منا رہی ہے اُور اِس سلسلے میں ملک بھر سے آئے کارکنوں کا اجتماع اسلام آباد میں منعقد کیا جائے گا‘ جس کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور تحریک انصاف کی پہلی کامیابی کا عرصہ ہے جسے کسی بھی صورت آخری نہیں ہونا چاہئے اور ایسا صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہوگا جبکہ ’کارکنوں‘ کو مقامی سطح پر اُن کی اپنی ہی قیادت کو چننے کا موقع دیا جائے۔ جمہوریت کی اصل روح سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی ’جمہوری اَقدار‘ ہوتی ہیں جس سے ’جمہوری سوچ اور فکر و عمل پروان چڑھتے ہیں۔ اُمید ہے ’یوم تاسیس‘ پر اظہار مسرت و تشکر کے ساتھ ماضی کی غلطیوں بارے میں غور اور اُنہیں نہ دُہرانے کا عہد کیا جائے گا اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو چڑھتے سورج کو چھپایا نہں جا سکے گا اور ’پی کے پینتالیس‘ کے ضمنی انتخاب کے لئے نامزدگی صرف اور صرف ’مقامی‘ پارٹی کارکنوں کے حصے میں آئے گی‘ جو ’سرکل بکوٹ‘ پر تین دہائیوں سے مسلط موروثی سیاست کے اُس دور کا ’احسن طریقے سے‘ خاتمہ چاہتے ہیں‘ جس نے اُنہیں سوائے پسماندگی میں اضافے کچھ اُور نہیں دیا۔ساری نظریں عمران خان پر لگی ہوئی ہیں‘ جن کی جانب سے تاحال کوئی ’حتمی فیصلہ‘ تو سامنے نہیں آیا‘ لیکن اُن کا لب و لہجے سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ سرکل بکوٹ کے مقامی کارکنوں کی بجائے اپنے اِردگرد خوشامدانہ‘ توصیفی اور تعریفی فقروں کے ساتھ منڈلانے والوں کے گمراہ کن تجزئیوں سے مرعوب ہیں۔ کیا ’تحریک انصاف‘ سے زیادہ بھی کوئی دوسری شے اہم ہو سکتی ہے؟
     
 
what is notes.io
 

Notes.io is a web-based application for taking notes. You can take your notes and share with others people. If you like taking long notes, notes.io is designed for you. To date, over 8,000,000,000 notes created and continuing...

With notes.io;

  • * You can take a note from anywhere and any device with internet connection.
  • * You can share the notes in social platforms (YouTube, Facebook, Twitter, instagram etc.).
  • * You can quickly share your contents without website, blog and e-mail.
  • * You don't need to create any Account to share a note. As you wish you can use quick, easy and best shortened notes with sms, websites, e-mail, or messaging services (WhatsApp, iMessage, Telegram, Signal).
  • * Notes.io has fabulous infrastructure design for a short link and allows you to share the note as an easy and understandable link.

Fast: Notes.io is built for speed and performance. You can take a notes quickly and browse your archive.

Easy: Notes.io doesn’t require installation. Just write and share note!

Short: Notes.io’s url just 8 character. You’ll get shorten link of your note when you want to share. (Ex: notes.io/q )

Free: Notes.io works for 12 years and has been free since the day it was started.


You immediately create your first note and start sharing with the ones you wish. If you want to contact us, you can use the following communication channels;


Email: [email protected]

Twitter: http://twitter.com/notesio

Instagram: http://instagram.com/notes.io

Facebook: http://facebook.com/notesio



Regards;
Notes.io Team

     
 
Shortened Note Link
 
 
Looding Image
 
     
 
Long File
 
 

For written notes was greater than 18KB Unable to shorten.

To be smaller than 18KB, please organize your notes, or sign in.